0

غزہ کی جنگ: امریکی بموں سے فلسطینی ہلاکتیں ہوئیں، بائیڈن

اسلام آباد (نیا محاز ۔ DW اردو۔ 09 مئی 2024ء) صدر جو بائیڈن نے امریکی نشریاتی ادارے سی این این کو دیے گئے ایک انٹرویو میں اعتراف کیا کہ اسرائیل نے غزہ میں حماس کو ختم کرنے کی غرض سے سات ماہ قبل جو حملے کیے، اس میں امریکہ کی جانب سے بھیجے گئے آتشی اسلحے کا استعمال بھی کیا گیا ہے۔

اسرائیل کو بھیجے گئے دو ہزار پاونڈ وزنی بموں کے بارے میں سوال پربائیڈن نے کہا، “ان بموں اور دیگر طریقوں کے استعمال کے نتیجے میں غزہ میں شہری مارے گئے۔


رفح حملے پر خدشات، اسرائیل کو امریکی بموں کی ترسیل معطل

غزہ میں فائر بندی غیر یقینی، رفح میں اسرائیلی کارروائی جاری

غزہ کی وزارت صحت کے مطابق اسرائیل کی دہشت گرد تنظیم حماس کے خلاف جنگ کے نتیجے میں اب تک تقریباً پینتیس ہزار فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں جن میں زیادہ تر عام شہری ہیں۔

صدر بائیڈن کا کہنا تھا کہ امریکہ تاہم اسرائیل کو دفاعی ہتھیار فراہم کرتا رہے گا۔

انہوں نے کہا، ”ہم مسلسل اس بات کو یقینی بنائیں گے کہ اسرائیل آئرن ڈوم اور حال ہی میں شرقِ وسطی سے ہونے والے حملوں کا جواب دینے کی صلاحیت کے لحاظ سے محفوظ ہو۔ لیکن ہم ہتھیار اور توپ خانے کے گولے فراہم نہیں کریں گے۔”
رفح پر حملہ کیا تو امریکہ اسرائیل کو ہتھیاروں کی فراہمی بند کر دے گا
جو بائیڈن نے تاہم بدھ کے روز پہلی بار اسرائیل کو اعلانیہ طور پر متنبہ کیا کہ اگر اسرائیلی افواج نے جنوبی غزہ میں پناہ گزینوں سے بھرے شہر رفح پر بڑا حملہ کیا تو امریکہ اسے ہتھیاروں کی فراہمی بند کر دے گا۔

غزہ میں ہلاکتوں کی تعداد 34 ہزار سے متجاوز

اسرائیلی فوج کا فلسطینیوں سے رفح کے مشرقی حصوں سے انخلا کا مطالبہ

بائیڈن کا کہنا تھا، “ہم نے واضح کر دیا ہے کہ اگر وہ رفح کا رخ کرتے ہیں تو ہم وہ ہتھیار فراہم نہیں کریں گے جو ان شہروں سے نمٹنے کے لیے استعمال کیے گئے ہیں جہاں یہ مسئلہ موجود ہے۔”

ایک سینیئر امریکی اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ واشنگٹن نے رفح میں استعمال ہونے والے ہتھیاروں کی ترسیل کا بغور جائزہ لیا تھا اور اس کے نتیجے میں 2,000 پاؤنڈ وزنی 1800 بم اور 500 پاؤنڈز وزنی 1700 بموں پر مشتمل ایک کھیپ کو روک دیا گیا ہے۔

اقوام متحدہ میں اسرائیل کے سفیر گیلاد اردن نے واشنگٹن کے فیصلے کو ”انتہائی مایوس کن” قرار دیا۔

اسرائیل کو بموں کی ترسیل کیوں روکی جا رہی ہے؟
امریکی وزیر دفاع لائیڈ آسٹن نے بدھ کو کہا کہ صدر جو بائیڈن نے اسرائیل کو بھاری ہتھیاروں کی فراہمی عارضی طور پر روکنے کا فیصلہ اس لیے کیا ہے کہ واشنگٹن کا خیال ہے کہ غزہ کے شہر رفح میں اسرائیل کے کسی ممکنہ حملے سے عام شہریوں کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ امریکی انتظامیہ اسرائیل کے لیے سکیورٹی سے متعلق کچھ جلد ہونے والی ترسیل کا بھی جائزہ لے رہی تھی۔
آسٹن بائیڈن انتظامیہ کے پہلے سینئر عہدے دار ہیں جنہوں نے اسرائیل کو اسلحہ دینے سے متعلق امریکی پالیسی میں کسی ممکنہ تبدیلی کی عوامی طور پر وضاحت کی ہے۔ سینیٹ کی ایک سماعت کے دوران آسٹن نے زور دیا کہ امریکہ اسرائیل کے دفاع کے لیے آہنی عزم رکھتا ہے اور اسلحہ کی ترسیل معطل کرنے کا فیصلہ حتمی نہیں ہے۔

تاہم انہوں نے کہا کہ امریکہ اس کو ترجیح دیتا ہے کہ ‘رفح میں کوئی بڑی لڑائی نہ ہو’ اور یہ کہ کم از کم کسی بھی اسرائیلی کارروائی میں عام شہریوں کی جانوں کا تحفظ ضروری ہے۔
آسٹن کا کہنا تھا، ”ہم شروع سے ہی اس بارے میں بہت واضح رہے ہیں کہ اسرائیل کو رفح میں وار زون میں موجود شہریوں کے تحفظ کے بغیر، وہاں کوئی بڑا حملہ نہیں کرنا چاہیے۔ “

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں