0

تنہائیوں کا سفر

تنہائیوں کا سفر
دوسری جنگ عظیم کے بعد ٹیکنالوجی میں سب سے برق رفتاری سے ترقی کرنے والی اقوام میں جاپانی سرفہرست تھے الیکٹرانکس، گاڑیاں ‘ ٹیکنالوجی‘انڈسٹری ‘کوئی شعبہ ایسا نہیں جس میں جاپانیوں نے اپنی قابلیت کا لوہا نہیں منوایا‘ بلاشبہ دنیا کی مارکیٹ پر جاپان نے راج کیا ‘ایسے گہرے نقوش چھوڑے کہ مستقبل قریب میں ان کے مٹنے کا کوئی امکان نظرنہیں آتا- “میڈ ان جاپان” کی مہر آج بھی بکتی ہے مگر اس دوڑمیں جاپان نے ایسی غلطی کی جس کے مضمرات ہیروشیما اور ناگا ساکی پر گرائے گئے اٹیم بم سے کہیں بڑھ کرتھے جاپان نے انسانوں پر انویسٹ نہیں کیا بلکہ انہیں مشینوں میں ڈھال دیا-انسانوں اور مشینوں کے درمیان کا فرق مٹ گیا‘بھاری ٹیسکوں کے بوجھ تلے دبے جاپانی آج کام کی جگہ پر چند گھنٹے نیند لینے کے بعد پھر سے کام میں لگ جاتے ہیں-نوجوان نسل میں شادی‘گھربسانے‘خاندان سے دور ہوتے ہوتے جذبات اور احساسات سے عاری ہوتی چلی گئی جب حکومت کو ہوش آیا تو بہت دیر ہوچکی تھی -حال ہی میں کچھ ایسے تحقیقی مقالے سامنے آئے ہیں جن میں سفارش کی گئی ہے کہ انسان سے دن میں پانچ یا چھ گھنٹے سے زیادہ کام نہیں لیا جانا چاہیے اور ہفتے میں تین دن آرام کے لیے مختص ہوں-انسان قدرت کی جانب سے عطاءکردہ احساسات اور جذبات سے عاری ہوجائے تو اس سے خطرناک حیوان کرہ ارض پر اور کوئی نہیں- جاپان کے طرز زندگی پر بننے والی ایک دستاویزی فلم میں بتایا گیا ہے کہ جاپانیوں کی نئی نسل سخت ڈیپریشن‘نفسیاتی عارضوں اورمایوسی کا شکار ہے ماضی میں بھی جاپان میں خودکشیوں کا رجحان دیگر اقوام سے زیادہ رہا جسے “مقدس موت” کے غلاف میں چھپایا جاتا رہا حالانکہ ذہنی دباﺅ، آمدن و اخراجات میں عدم توازن،معاشرتی اقدار و روایات سے کمزور ہوتے رشتوں کے باعث نوے کی دہائی میں منفی اثرات سامنے آنا شروع ہو چکے تھے۔

جاپان دنیا کے ان ممالک میں سے ہے جہاں شہری بسوں‘ٹرینوں میں سوتے دکھائی دیتے ہیں ‘اس کے ساتھ نیند پوری کرنے کے لیے کرائے پر تابوت نما جگہیں ،افورڈ ایبل ہاﺅسنگ کے نام پر “ٹائنی ہوم” کو فروغ دیا گیا حالانکہ ان کے شہروں کے شہر بے آباد پڑے ہیں مگرشعوری طور پر عالمی ایجنڈے پر عمل کرتے ہوئے بڑے شہروں میں آبادیوں کو بڑھایا گیا ہمارے ہاں گھروں کے گیراج جتنے رقبے پر بنے فلیٹس کو گلیمرائز کیا گیا اب”ترقی“ کی قیمت ادا کرنے کا وقت آن پہنچا ہے مگر جاپان ابھی تک نوجوان نسل کے مسائل کو مکمل طور پر سمجھنے کو آمادہ نہیں۔
دستاویزی فلم جاپان کے ہی ماہرین عمرانیات کی تحقیق پر مبنی ہے جس میں جاپانی مڈ ایج اور نوجوان نسل کے انٹرویوز شامل ہیں -جاپان میں غربت بڑھ رہی ہے یہ حیران کن ہے‘جاپانی نوجوان نقل مکانی پر گفتگو کررہے ہیں مگر بڑے ملکوں کی طرف نہیں ان کا ہدف ایسے ممالک ہیں جو بہت کم رفتار سے ”ترقی“کو اپنا رہے ہیں-یہ رجحان ان کی ”ترقی“سے بیزاری کو ظاہر کرتا ہے‘دنیا میں ایک انسان کی زیادہ سے زیادہ عمر کتنی ہوسکتی ہے؟ایک سو سال یا اس سے کچھ اوپر؟انسانوں زندگی کو ہزاروں سالوں تک لمبا کرنے میں ابھی تک کامیاب نہیں ہوا-چنگیزخان جس ملک کو بھی فتح کرتا اس کے نامور طبیبوں‘پروہتوں‘روحانی پیشواﺅں کو بلاکر ہمیشہ کی زندگی کا رازجانے کی کوشش کرتا یہ ایک عام انسان کی فطرت کے عین مطابق ہے مگر وہ پینسٹھ اور بعض روایات کے مطابق چھیاسٹھ سال ہی جی پایا- اس مختصر زندگی سے بھی ایک طرف روحانی ضروریات میسرنہیں‘خانہ بدوش منگول بھی دل ودماغ کو روحانی تقویت دینے کے لیے غاروں میں تنہا وقت گزارتے تھے‘چنگیزخان کسی بھی بڑی مہم سے پہلے تن وتنہا منگولیا کی ایک ”مقدس پہاڑی“پر کئی کئی دن گزارتاحالانکہ ان کے پاس کوئی الہامی کتاب نہیں تھی-روحانی سکون انسان کی ہمیشہ سے ضرورت رہا ہے اس کے لیے اس نے بت تراشے‘سورج ‘چاند‘حیوانات ‘نباتات تک کونغوذبااللہ معبود سمجھا – الہامی علم کی روشنی کے بغیر دنیاوی علوم و فنون سے انسان مایوسی اور ناامیدی کی اندھی کھائیوں میں جاگرتا ہے یہی آج کے انسان کا المیہ ہے کہ وہ الہامی روشنی کے بغیراندھیروں میں سفر کرنا چاہتا ہے۔
علم نفسیات کے ماہرین چیخ رہے ہیں کہ انسان کی جسمانی وذہنی مشقت کی ایک حد ہے اس سے آگے تباہی کی اندھی کھائیاں ہیں‘بھارت میں نوجوانوں میں ہارٹ اٹیک‘برین ہیمرج سے اموات کا سلسلہ بڑھنا شروع ہو ا تو ماہرین نے اس پر تحقیق شروع کی اور اس نتیجے پر پہنچے کہ اس اندھی دوڑمیں انسان کا دماغ ہر وقت ٹاسک دیتا رہتا ہے حتی کہ نیندکے دوران بھی یہ عمل جاری رہتا ہے جس سے ایسے کیمیکلزکا مسلسل اخراج ہوتا رہتا ہے جو ہمیں خطرے یا دوڑمیں پیچھے رہ جانے کے خوف میں مبتلا رکھتے ہیں -معمولی ذہنی دباﺅ سے شروع ہونے والا یہ عمل جلد ”کرانیک ڈپریشن “میں بدل جاتا ہے ‘ہماری دماغی صلاحتیں کمزور ہونے لگتی ہیں ‘دماغ کے اعضاءکو احکامات جاری کرنے کا بگڑنے لگتا ہے جس کا نتیجہ انسان کو موت تک لے جاتا ہے-اسی کے زیراثرانسان خودکشی تک جیسا انتہائی قدم اٹھالیتا ہے مگر اس سب کے پیچھے مادہ پرستی کی اندھی دوڑہے جس سے دنیا میں نفسیاتی صحت کے مسائل خوفناک حد تک بڑھے ہیں‘معاشی دہشت گردوں کی دولت کے انبار بڑھتے جارہے ہیں مگر عا م انسان کو اس کی کیا قیمت چکانا پڑرہی ہے؟- جاپان بھی مادی ترقی، زیادہ سے زیادہ پیسہ کمانے کی دوڑ میں اپنی نسلوں کو برباد کربیٹھا، ضروریات کے پھیلاﺅ کے ساتھ زیادہ سے زیادہ پیسوں کی بھی ضرورت ہوگی یہی معاملہ آج دیگر اقوام کے ساتھ عام پاکستانیوں کو بھی درپیش ہے -ہم نے ترقی کی “قیمت” کے بارے میں نہیں سوچا اور نتائج سے بے پرواہ آگے بڑھتے گئے،ہم نے کبھی سوچا کہ “ترقی” کے ساتھ معاشروں میں منشیات کا استعمال کیوں بڑھتا گیا؟جسم کو تو سب کچھ مل رہا تھا مگر روح کہیں یا کچھ اور اندر کے انسان کی بھوک پر توجہ نہیں دی گئی‘جس کی وجہ سے بہت سارے معاشرتی مسائل اور برائیاں کنٹرول سے باہر ہوتی چلی گئیں- مجھے امریکا میں انہی سماجی مسائل کو بہت قریب سے دیکھنے اور سمجھنے کا موقع ملا عام ملازمت پیشہ لوگوں کی بستیوں میں رہ کر وہ چھپے حقائق سامنے آتے ہیں جن پر حکومتوں نے ہالی وڈ اور ڈزنی لینڈ کے زرق برق کا پردہ ڈالا ہوتا ہے،ٹوکیو یا نیویارک کے ٹائم اسکوائر کی چکا چوند روشنیاں آنکھوں کو چندھیا دیتی ہیں ایسا سحر طاری کرتی ہیں کہ چند ہفتوں یا مہینوں کے لیے جانے والے کو انہی شہریوں کی تاریک گلیوں میں دم توڑتی انسانیت ‘ غربت اور افلاس نظر آتا ہے اور نہ ہی پب اور کلبز کی بلند موسیقی میں ان کی دردناک سسکیاں اور آہیں سنائی دیتی ہیں۔
جو نشہ جتنا سستا ہوگااس کی کھپت اتنی زیادہ ہوگی مگر سستے نشے کی قیمت بہت بھاری ہوتی ہے یہ انسان کو گھن کی طرح تیزی سے چاٹتا چلا جاتا ہے-تصور کریں کہ ایک انسان دن بھر کام کرنے کے بعد رات نیند لینے کی بجائے بے ہوشی میں کیوں گزارنا چاہتا ہوگا؟ کیونکہ جینے کے لیے سخت جسمانی مشقت پھر اخراجات پورے نہ ہونے پر بیوی‘بچوں اور قریبی رشتوں کے ٹوٹ جانے سے وہ ذہنی طور پر ہار چکا ہوتاہے ‘اسی کے چلتے بیماریوں آن گھیرتی ہیں اب قلیل آمدنی میں ڈاکٹر کی فیس‘ ادویات یہ سب اس کی پہنچ سے باہر ہوتا ہے تووہ سستے اور آسان حل یعنی منشیات کا سہارا لیتا ہے-ذہنی دباﺅ آج ہمیں بھی تباہی کی جانب لے جارہا ہے یقین نہ آئے تو لاہور کی کسی بھی بستی کے میڈیکل سٹور پر شام کے وقت چند گھنٹے گزار کر دیکھ لیں،کوڈین یا افیون کی زیادہ مقدار والے کھانسی کے شربت سب سے زیادہ بکنے والا آئٹم ہیں ۔
مجھے کوئی خبط نہیں کہ عالمگیریت کو ساری برائیوں کی جڑ قرار دیتا ہوں اس پر بہت تحقیق ہوچکی ہے ہزاروں کتابیں لکھی جاچکی ہیں،آج کے انسان کے درپیش بیشترمسائل کی جڑیں اسی سے جاکرملتی ہیں چند سال پہلے بی بی سی دنیا کی بڑی بڑی یونیورسٹیوں سے تحقیق کروائی ان کی رپورٹس کودو حصوں میں تقسیم کر کے شائع کیا گیا موضوع انسان کو موجودہ صورتحال میں تباہی سے کیسے بچایا جاسکتا ہے؟ پہلے حصے میں ماہرین جس نتیجے پر پہنچے کہ انسان کا میکنیکل طرز زندگی اس کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہے اس سے بچاﺅ کے لیے تجویزکیا گیا کہ انسان اپنے اجداد کے طرز زندگی کی جانب لوٹ جائے ان کے نزدیک اور کوئی راستہ نہیں بچا- دوسرا حصہ اقوام اور ملکوں سے متعلق تھا کہ مستقبل میں خوراک میں خود کفیل قومیں ہی بچ سکیں گی‘عالمگریت سے پہلے اگر کوئی ایک ملک یا خطہ آفت کا شکار ہوتا تھا تو اس کے اثرات محدود رہتے تھے آج ایک اسٹاک مارکیٹ کا اتار چڑھاﺅ پوری دنیا کو ہلا دیتا ہے۔
کہتے تھے ”کرونا“سے دنیا بدل جائے گی اور وہ ایسی بدلی کہ عالمی معیشت کو”ری سیٹ“مارنے کے چکر میں ساری دنیا کوتباہی کے دہانے پر لاکھڑا کیا -یورپ میں اپنے کاروبار کرنے والے آج ملازمتیں کرنے پر مجبور ہیں دوسرے حصے میں زوردیا گیا کہ خوراک میں خود کفالت مستقبل میں قوموں کی بقاءکی ضامن ہے کیونکہ جان پرکنزکے مطابق انیس سو ستر کی دہائی میں کمائی کے نہ ختم ہونے والے ذریعے یعنی خوراک اور پانی پر ”معاشی دہشت گرد“قابض ہونے کی منصوبہ بندی کرچکے تھے اور چند دہائیاں قبل اس پر عمل درآمد بھی شروع ہوچکا ہے- اسی کی پیش بندی کے طور پر دنیا کے کئی ممالک جن میں سعودی عرب‘متحدہ عرب امارات اور اسرائیل خوراک میں خود کفالت کے بڑے بڑے منصوبوں پر کام کررہے ہیں ‘ہمسایہ ملک بھارت گندم پر مکمل انحصار کی بجائے باجرہ‘جوار اور جو کو اناج کا حصہ بنا رہا ہے جوکہ صحت بخش بھی ہے – افغانستان جیسا ملک خوراک میں خود کفالفت کے منصوبوں پر تیزی سے کام کررہا ہے جبکہ ہم آباد کھیت کھلیان اجاڑ کر ان پر رہائشی کالونیاں کھڑی کرتے چلے گئے اس وبا نے بڑے شہروں سے نکل کر دیہاتوں تک کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہماری حکمران اشرافیہ کا ملک یا یہاں کے لوگوں سے کوئی تعلق نہیں‘اس کا تعلق صرف اس ملک کے نام پر حاصل کیئے جانے والے قرضوں‘عوام سے نچوڑے جانے والے مال پر شاہانہ زندگیاں گزارنے تک ہے لہذا ان کی طرف سے سب کچھ تباہ ہوجائے پرواہ نہیں۔
یہاں پھر اپنی بات کو دہرانا چاہونگا کہ الہامی علم کی روشنی کے بغیر کا علم و ہنر تباہی کے گڑھے میں ہی گراتا ہے یہ ہم پوری دنیا میں دیکھ رہے ہیں مغرب نے الہامی علم کی ٹارچ کو ایک طرف رکھ کر سائنس اور ٹیکنالوجی پر انحصار کیا نوٹ کریں کہ ان کی اس “ترقی” کی انتہا کا زمانہ کتنا ہے؟ سو سے ڈیڑھ سو سال ،ان میں سے بھی ابتدائی پچاس،ساٹھ سال(یعنی ایک نسل) وہ ہیں جن میں الہامی علم کی روشنی اور ہدایت کو تسلیم کرنے والوں کی بڑی تعداد اس میدان میں موجود تھی ان کے ذاتی نظریات کسی نہ کسی طور پر اثر اندازہوتے رہے “ترقی” میں کلی دہریت کا زمانہ سو سال سے بھی کم ہے جس نے انسانیت کو آج جس نہج پر پہنچا دیا ہے کہ اس کے ایک طرف کھائی ہے تو دوسری جانب کھولتا لاوا-لگتا نہیں کہ وہ وقت دور ہے جب پوری دنیا ”سسٹم“ کے خلاف اٹھ کھڑی ہوگی یا قدرت کا آٹو سسٹم حرکت میں آئے گا انسان کو بقاءکے لیے اپنی اصل کی طرف لوٹنا ہوگا۔
پاکستان جیسے ملکوں سے لوگ جاپان،آسٹریلیا، کینیڈا ،امریکا اور مغربی دنیا کی جانب ہجرت کر رہے ہیں جبکہ ان کے لوگ دور دراز ویرانوں کا رخ کررہے ہیں‘ پسماندہ ملکوں کی جانب جارہے ہیں یا کم از کم یہ خواہش رکھتے ہیں- انسان تھک گیا ہے اب، تھکاوٹ غالب آنا شروع ہوگئی ہے یہ تبدیلی اس تھیوری کو تقویت دیتی ہے کہ انسان کی بقاءاپنی اصل کی جانب لوٹنے میں ہی ہے۔
جدید علوم کی درسگاہوں سے ڈگریاں لینے والے مذہبی سکالر کیوں بن رہے ہیں؟ انہیں “کیرئیر” کی پرواہ نہیں یا وہ دیوانے ہیں؟ یہ تبدیلی صرف مسلمانوں نوجوان میں ہی نہیں بلکہ دیگر مذاہب میں بھی آرہی ہے- عام نوجوانوں میں مذہبی رجحانات،شاید کچھ لوگ اختلاف رکھتے ہوں مگر جو حقائق سامنے آرہے ہیں وہ اسی جانب اشارہ کرتے ہیں، مذہب سے بیزاری ایک دو نسلوں کو ہی متاثر کرسکی مغربی دنیا پر نظر دوڑائیں “دائیں بازو” کی جماعتوں اور راہنماو¿ں کی مقبولیت ایسی بڑھی کہ آج بڑی بڑی طاقتوں کی حکمرانی “دائیں بازو” کی جماعتوں کے پاس ہے اگرچہ “بائیں بازو” کا اثر و رسوخ مکمل طور پر ختم نہیں ہوا مگر ایسا کیا ہوا ہے کہ مذہب سے بیزار اہل مغرب مذہبی پس منظر رکھنے والوں کو ترجیح دینے لگے ہیں، امریکا جو اس تحریک کا سرخیل تھا وہاں انتہا پسند مذہبی کانگریس کے رکن‘ریاستوں کے گورنر اوربڑے بڑے شہروں کے میئر منتخب ہورہے ہیں‘ عوامی جائزوں میں “اولڈبلیویز” رکھنے والا (سابق نائب صدر)مائیک پنس ایک بڑی اکثریت کا پسندیدہ صدارتی امیدوار ہے جو امریکا جیسے معاشرے میں اپنی بیوی کے علاوہ کسی خاتون کے ساتھ کھانے پر جانے کو بھی معیوب سمجھتا ہے-اسی امریکا میں ڈونلڈ ٹرمپ “دائیں بازو ” والے”اولڈ بلیورز” کی حمایت سے ہی وائٹ ہاوس تک پہنچا،یہی ”اولڈبلیورز“کی وجہ سے امریکا نے خاتون کی بجائے اوبامہ کی صورت میں سیاہ فام کی صدارت قبول کرلی -مغربی دنیا میں چند سالوں سے جیسے ایک خاموش انقلاب آرہا ہے فرانس،جرمنی،سویڈن،اسپین کی حکمران جماعتوں کو دیکھ لیں ،اسلامی دنیا بدقسمت ہے جو الٹی سمت میں جارہی ہے۔
آج کا انسان سکون قلب کا متلاشی ہے مگر سمت غلط ہے وہ ہر مسلے کا حل سائنس سے چاہتا ہے ‘دوائیاں یا منشیات اسے وقتی سکون تو دیتی ہیں مگراثرختم ہوتے ہی خواب ٹوٹ جاتا ہے- جنہیں خالق کائنات شعور کی نعمت سے نوازتا ہے وہ جنگلوں، پہاڑوں اور ویرانوں کی طرف بھاگتے ہیں گہرے سمندروں کے بیچوں بیچ چھوٹے چھوٹے جزائر کی طرف جاتے ہیں “ترقی” سے حاصل ہونے والی آسائشوں اور آسانیوں سے دور- انسان کے اس روحانی مسلے کو “ترقی” حل کرسکی ہے نہ کرسکتی ہے،انسان اپنی ہی تلاش میں ویرانوں کا رخ کرتا ہے وہ گمنامی چاہتا ہے جو سمجھ جاتا ہے جبکہ دوسری طرف ایسی مخلوق ہے جو شہرت،دولت اور پہچانے جانے کی بھوک میں ہر اخلاقی اور معاشرتی حد کو پار کرجانا چاہتی ہے خودنمائی، دولت کے حصول کے لیے مکروہ ترین حرکات کیا ہر طرف دکھائی نہیں دے رہیں، مادیت کے نشے میں ڈوب کر خونی رشتوں تک کا تقدس پامال ہورہا ہے۔
خود سے ملاقات تنہائیوں میں ہی ممکن ہے یہ وہ دنیا ہے جس سے خالق کائنات نے انبیاءکرام علیہم السلام اور اپنے خاص بندوں کو گزرا،انہیں تنہائیوں کے سفر نصیب کیے،انہیں ویرانوں اور تنہائیوں میں ہی”نروان” ملا۔ قدرت کے قوانین نہیں بدلتے آج بھی کا انسان بھی اپنے اندر راکھ میں چھپی چنگاری کو تلاش کر سکتا ہے مگر یہ ویرانوں اور تنہائیوں کے سفر کے بغیر ممکن نہیں ‘ویرانوں کا رخ کر‘تنہائیوں کو ہم سفر بنا ‘گمنائیوں میں گم ہوجا تیری اپنی ذات سے ملاقات ہوجائے گی ‘حق تک رسائی خود سے ملاقات کے بغیر ممکن ہی نہیں ‘جو خود سے ملاقات کرلیتا ہے وہ حق کو بھی پالیتا ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں